Join our email list
Get exclusive deals and early access to new products.
میں آج اپنی زندگی کے آٹھویں عشرے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ زندگی کی برق رفتاری نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیوں کیا ہے؟ کہمیں نے سماج کے فرسودہ ریت و رواج کو کیوں نہ اپنایا۔ انسان کا پختہ کردار ہی زندگی کے ہر قدم پر ہماری سوچ ہمارے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ میں نے سماج کے ان لوگوں کی سوچ سے اپنے آپ کو الگ کیوں رکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ وقت کی غلامی کی ہوا جس سمت چل پڑے اتنے بے وزن ہوتے ہیں کہ سوکھے پتوں کی طرح ہوا کے دوش پر اُدھر کے ہو لیتے ہیں۔ میں زندگی کے راستے خود متعین کرتا ہوں ۔ کیوں کہ انسان کا واسطہ جن عوامل سے سب سے پہلے پڑتا ہے وہ انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ سماجی گٹھ بندھن ، مذہبی عقیدت ، سماج کے ریت و رواج اور محب وطن ہونے کے وفاداری کے دعوے۔ جب میں نے ان کے اندر رہ کر ان کو اندر سے دیکھا اور پر کھا تو سب جھوٹ ہی جھوٹ ۔
اس کے بعد میں نے برصغیر سے نکل کر خانہ و خدا کے مقدس مقام اور بچے مذہب کے ماننے والے لوگوں کے کردار کو دیکھا، اور اس کے بعد جب میں نے کفار زمانہ کے چند ممالک میں جا کر مشاہدہ کیا تو پتہ چلا ان لوگوں نے مذاہب کے جھگڑوں سے دور رہ کر انسانوں کے لئے سائنسی اور بنیادی ضرورتوں کو ایجاد کیا ہے۔ آج کی دنیا میں انسانوں کو جو آسانیاں میسر ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھیں۔۔۔
Pages 254
ISBN 9786273002590